Faraz Faizi

Add To collaction

17-May-2022-تحریری مقابلہ۔(اسکول کا پہلا دن) یادگار لمحوں کی سوغات



یادگار لمحوں کی سوغات

ہر کسی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی پل ایسا ضرور ہوتا ہے جو ایک حسین یادگار کے طور پر کتاب حیات کے بوسیدہ پنوں پر اپنے گہرے نقوش کے ذریعے انہیں زندہ رکھتا ہے۔پھر وہ عمر کے آخری حصے کی صورت میں ہو ، بھری جوانی کے ہوں، بچپن کے ہوں یا پھر زندگی کے کسی بھی گوشے کے۔
انہیں یادگار پلوں کی ایک جھلک اسکول کا پہلا دن بھی ہے۔کہنے کو تو یہ پہلا دن ہے لیکن اگر میں اپنا نظریہ آپ سے شئیر کروں تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اسکول کا یہ پہلا دن ہمارے مستقبل کا پہلا دروازہ ہے، ہمارے آنے والے کل کو بہتر سے بہتر بنانے کا واحد راستہ ہے، ہماری ترقی یا زوال کا آئینہ ہے، ہماری سماجی، خاندانی ،ملی، سقافتی، اور سیاسی زندگی کی بقا کا ذریعہ ہے، کیوں کہ ہر قوم کی ترقی کا راز اسی اسی اسکول، مدرسے، یا پاٹھ شالہ کے بستوں میں بند تعلیمات کی مرہون منت ہے۔
اسکول کے پہلے دن کی گھبراہٹ ہی ہمیں یہ پہلا سبق دیتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ سترک رہنا چاہئے۔جس طرح پہلے دن ہم گھبراتے ہیں کہ نہ جانے کیا ہوگا، کون دوست بنےگا کون مخالف، کون ساتھ دیگا اور کون نہیں! اسی طرح ساری زندگی ہمیں یہ سبق یاد رکھنا چاہئے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسکول کے پہلے دن بچوں کی جس سے یاری ہوتی ہے وہ یاری پھر ختم نہیں ہوتی، اسکول کے دن ختم ہوجاتے ہیں لیکن وہ ساتھ وہ جذبات لوگ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔اور ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ساتھ نبھنے والے پہلے دن سے آخری دن تک نبھاتے ہیں پھر وہ اسکول کا پہلا دن ہو یا زندگی کے آخری لمحات۔

ہمیں یاد ہے جب ہم بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے اور اس وقت اپنے آبائی وطن سے کوسوں دور پنجاب کی سرزمین ہمارے اہل خانہ کی رہائش ہواکرتی۔اباحضور نے میرا اور میرے بڑے بھائی کا داخلہ شہر کے بڑے سے اسکول میں کردیا تھا۔یاد ہے مجھے وہ پہلا دن جب ہمارے کرائے کے مکان کے سامنے علی الصبح ایک میانہ عمر کے چاچا کرتا پائجامہ پہنے سر پر سفید رنگ کی ٹوپی اوڑھے، بکسے نما جالیوں والی تین پہیہ گاری لیکر حاضر ہوئے۔امی جان نے بڑے پیار سے نہلا کر سوانوار کر اس تین پہیہ والی سواری میں بٹھایا تھا۔میری معصوم سی آنکھوں میں آنسووں کی قطاریں تھی،اور دل اسکول نہ جانے پر بضد۔ خیر کسی طرح روتے ہوئے اسکول پہنچے تو قریب ہی جامع مسجد کے پاس گولے والے کا ٹھیلا لگا تھا، میں چپ ہوجاوں اس لئے بڑے بھیا نے لچھے کا گلاس جو کہ سوئیوں اور برف اور مختلف رنگ کے میٹھے شربت سے تیار کیا گیا تھا، دیا پھر کیا تھا ہم خاموش ہوگئے اور خوشی خوشی راضی ہوگئے۔
عمر تو اپنی آخری منزل کی طرف مسلسل رواں دواں ہے لیکن وہ اسکول کا پہلا دن، اور وہ نہ جانے کی ضد اور لچھے کی مٹھاس آج بھی منہ میں کھٹے میٹھے ذائقے گھول دیتی ہے۔

بقلم: فراز فیضی

   12
2 Comments

Arshik

23-May-2022 01:57 PM

Amazing

Reply

Mamta choudhary

23-May-2022 01:41 PM

Very nice👌👌

Reply